یادیں، - ٹیگ

گئے دنوں کی یادیں (12)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں (12)۔۔مرزا مدثر نواز/پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز سن انیس سو چونسٹھ میں کیا البتہ ٹیلی ویژن سیٹ عام ہوتے ہوئے کافی وقت لگا۔ اسی و نوے کی دہائی تک محلے میں یہ سیٹ ہر گھر کی زینت نہیں بنا تھا‘ اکثریت کے پاس چودہ انچ کا بلیک اینڈ وائٹ سیٹ تھا←  مزید پڑھیے

گئے دنوں کی یادیں(11)۔۔مرزا مدثر نواز

سائیکل چمپئن سے آج کی نسل یقیناََ واقف نہیں ہو گی‘ کچھ لوگوں کا ایک گروہ ہوتا جو گاؤں کے باہر کھلی جگہ کا انتخاب کرتے اور ایک گول دائرہ بنا کر اس کے گرد لکڑیوں کا جنگلا لگا لیتے‘←  مزید پڑھیے

گئے دنوں کی یادیں (10)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں (10)۔۔مرزا مدثر نواز/آج کے دور میں تقریباً ہر کسی کے پاس موبائل فون میں ڈیجیٹل کیمرہ موجود ہے جس سے لاتعداد تصاویر بنائی جا سکتی ہیں جبکہ ماضی میں یہ عیاشی نہیں تھی۔ اینا لاگ یا←  مزید پڑھیے

گئے دنوں کی یادیں (7)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں (7)۔۔مرزا مدثر نواز/کسی بھی دوسرے تہوار کی طرح شادی بیاہ میں بھی بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر وہ اپنی موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی ہالز اور مارکیز کی موجودگی سے پہلے گاؤں میں کسی خالی جگہ پر تنبوں، کناتیں اور کرسیاں لگائی جاتی تھیں←  مزید پڑھیے

گئے دنوں کی یادیں (5)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں/میں اور میرے ہم عمر زندگی کے جس حصے سے گزر رہے ہیں‘ ایسا کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے زمانے میں اس اس طرح ہوتا تھا۔ بچپن و لڑکپن کی حسین یادویں ہک جن کو قلمبند کرنے کا مقصدذہن میں محفوظ فولڈرز کو کھول کر کچھ لمحات کے لیے خوشی محسوس کرنا جیسے پرانی تصویروں والے البم کو دیکھ کر ماضی کے لمحات کو یاد کیا جاتا ہے←  مزید پڑھیے

یادیں ! کچھ یاد رہا، کچھ بھول گئے۔۔وہاراامباکر

جولائی 1984 کی رات بائیس سالہ طالبہ جینیفر تھامپسن اپنے اپارٹمنٹ میں سو رہی تھیں۔ صبح تین بجے ایک شخص ان کے پچھلے دروازے پر آیا۔ فون لائن کاٹ دی۔ بلب توڑ دیا اور گھر میں داخل ہو گیا۔ قدموں←  مزید پڑھیے